Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

دھم… دھم… دھڑام کی آوازیں بھی اس کی چیخوں میں شامل ہونے لگی تھیں۔ سیڑھیوں پر رکھے گملے بھی اس کے ساتھ گرنے لگے تھے۔ خاموش ماحول میں ایک بے ہنگم شور پھیل گیا تھا۔ طغرل غیر متوقع طور پر اس کے اس طرح پھسل جانے پر لمحے بھر کو ساکت رہ گیا تھا مگر پھر دوسرے ہی لمحے وہ سیڑھیوں کی طرف بھاگا اور اس کی کوشش تھی کسی طرح پری کو بچا لے اور پری بہت تیزی سے نیچے کی طرف لڑھکتی جا رہی تھی۔
بالآخر وہ فرش پر ایک دھماکے سے گری اور ساتھ ٹوٹے پھوٹے گملے بھی اس پر آن پڑے۔

”الٰہی خیر! کیا ہو گیا میری بچی… کس طرح گر گئیں؟“ طغرل جب اس کے پاس پہنچا  دادی جان بھی اسی لمحے تسبیح پڑھتی ہوئی وہاں گھبرائی ہوئی آئیں اور پری کی مخدوش حالت دیکھ کر وہ سخت حواس باختہ ہو گئی تھیں۔
(جاری ہے)

جو اٹھ کر تو بیٹھ گئی مگر ایک دم چکر آنے کے باعث کھڑی ہوتی ہوئی دوبارہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔

”ارے کیا ہوا میری بچی کو…؟“ وہ اس کے قریب ہی بیٹھ گئی تھیں۔

”چلیں دادو! ہم پری کو ڈاکٹر کے پاس لے چلتے ہیں۔“ طغرل اس وقت اپنی تمام شوخی و شرارت بھول کر بالکل سنجیدہ تھا۔

”ہاں… ہاں چلو  نہ جانے کہاں چوٹ لگی ہے۔ اوپر سے گری ہے آخر… ہڈی پر نہ لگ گئی ہو۔ ڈاکٹر کے پاس جانا ہی ٹھیک ہے  چلو اٹھو میری بچی… ہمت کرو۔“ دادی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھنے میں مدد دینی چاہی مگر اس وقت اس کا پورا وجود کسی پھوڑے کی مانند دکھ رہا تھا۔
آنکھوں تلے اندھیرا چھا رہا تھا۔ وہ دادی جان سے بھی زیادہ کمزور جسم کی مالک تھی لیکن اس وقت دادی اسے سہارا دینے میں ناکام رہی تھیں۔ بے بسی سے انہوں نے قریب کھڑے طغرل کو دیکھا جو خود صورت حال کو سمجھ رہا تھا مگر کچھ کہنے کی یا آگے بڑھ کر سہارا دینے کی ہمت یوں نہ کی تھی کہ پری کی طبیعت کو وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ اسے چھونے کا مطلب تھا  کسی نئے طوفان کا سامنا کرنا۔

”ارے! تم کھڑے منہ کیا دیکھ رہے ہو؟ سہارا دے کر اٹھاؤ بچی کو… وہ بالکل بے جان ہو رہی ہے اتنی اونچائی سے لڑھکتی ہوئی آئی ہے  موئے گملوں نے بچی پر گر کر رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔“ دادی جان اس وقت اس قدر ٹینشن میں تھیں کہ ان کو احساس ہی نہ ہوا تھا وہ اپنے چہیتے پوتے کو بری طرح ڈانٹ رہی ہیں۔ ان کی جھاڑ کھا کر طغرل بدحواس سا ہو کر آگے بڑھا تھا۔

”آپ فکر نہ کریں دادی جان! میں اٹھ جاؤں گی۔“ قریب آتے طغرل کو دیکھ کر پری نے کہا تھا حالانکہ اس تمام عرصے میں وہ ہر ممکن کوشش کے باوجود کھڑی نہ ہو سکی تھی۔

”سن لیا دادی جان آپ نے…؟“ اتنی تکلیف میں بھی اس کا گریز طغرل کو آگ بگولا گیا تھا۔ ”میں اس لئے آگے نہیں بڑھ رہا تھا کہ یہ خود کو بہت صاف ستھری اور دودھ سے دھلی ہوئی سمجھتی ہیں۔
میرے ہاتھ لگانے سے ان کو میلے ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔“ اس کی شرمندگی دور ہو گئی تھی۔

”ہائیں! تم کب سے ان لوگوں میں شمار ہونے لگے جن کے ہاتھ لگانے سے میلے ہونے کا خدشہ ہو جاتا ہے؟“ وہ حیرانی سے گویا ہوئیں۔

”ان سے ہی پوچھئے جن کی اس تکلیف میں بھی اکڑ ختم نہیں ہو رہی۔“ اس کے انداز میں سخت کبیدگی در آئی تھی۔

”دادی جان پلیز ان سے کہیں یہاں سے جائیں  کھڑے ہو کر میرا تماشا دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں اٹھ جاؤں گی ابھی…“ نہ چاہنے کے باوجود آنسو اس کی پلکوں پر لزرنے لگے تھے۔

”واہ بھئی واہ! کر دی نہ تم نے بھی وہی بے وقوفوں جیسی بات  کوئی تم سے ہمدردی کر رہا ہے اور تمہیں تماشا لگ رہا ہے؟ اگر طغرل تمہیں سہارا دے گا تو کون سی قیامت آ جائے گی؟ مجھ بوڑھی میں طاقت نہیں ہے۔“ وہ حسب عادت بھرے بادلوں کی طرح برسنے لگیں تو پری کو ناگواری سے ہی سہی مگر طغرل کے بازوؤں کا سہارا لینا پڑا تھا۔
کھڑے ہوتے وقت بڑی بہادری سے اس نے اپنی چیخوں کو گلے میں دبایا تھا  جسم کی ایک ایک ہڈی کراہ اٹھی تھی۔ طغرل کا بازو اس نے ہولے سے تھاما تھا مگر شدید تکلیف میں اس کو یہ احساس ہی نہ ہو سکا تھا کہ وہ اس کے بازو کے سہارے پر چل رہی ہے اور وہ بھی اس وقت اس کی تکلیف کا احساس کئے بے حد ہمدردی و خلوص سے اس کو سہارا دیئے ہوئے تھا اور ان کے ہمراہ چلتی ہوئی دادی کو دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی پری کو دیکھ کر یہ اطمینان ہوا تھا کہ وہ کسی فریکچر سے محفوظ رہی تھی۔

###

ہر سمت پھول ہی پھول تھے۔ فضائیں خوشبوؤں سے مہکی مہکی بوجھل تھیں۔ صفدر جمال نے پورے بنگلے کو پھولوں سے سجا کر منور کر دیا تھا۔ مثنیٰ گھر آ گئی تھیں اور اسی خوشی میں صفدر جمال نے ایک گیٹ ٹوگیدر پارٹی رکھی تھی  مہمانوں کی کثیر تعداد جس میں شریک تھی۔ صفدر جمال اور مثنیٰ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مہمانوں میں گھل مل گئے تھے۔

مثنیٰ پارلر سے تیار ہوئی تھیں  گولڈن اینڈ بلیک فینسی کام والی ساڑھی میں لائٹ میک اپ اور ڈائمنڈ جیولری میں وہ بے حد حسین دکھائی دے رہی تھیں۔ اپنی ہم عمر بیگمات میں بیٹھی عشرت جہاں بہت پیار سے بیٹی کے اس دلکش روپ کو دیکھ رہی تھیں۔ کل تک وہ کتنی اجڑی اجڑی  بکھری بکھری تھیں  پھول کی ان پتیوں کی طرح جو دھوپ کی سختی کے باعث بے رنگ ہونے لگتی ہیں۔
آج وہ گل لالہ کی طرح لگ رہی تھیں خوشنما و خوش رو۔

صفدر جمال بھی ان کے ساتھ تھے۔ ڈنر سوٹ میں ملبوس بہت عمدہ ڈریسنگ تھی ان کی… ان کو احساس تھا وہ مثنیٰ کے دل فریب حسن کے آگے بہت واجبی سے دکھائی دیتے تھے اور اپنے اس کمپلیکس سے نجات حاصل کرنے کیلئے وہ ہمیشہ بے حد نک سک سے تیار ہوتے تھے اور عام دنوں میں بھی اپنا بے حد خیال رکھتے تھے مگر…!

کبھی بھی وہ مثنیٰ کے جوڑ کے نہیں لگتے تھے۔
گندمی رنگت و عام سے نقوش…! اعلیٰ ملبوسات اور بہترین تیاری نے بظاہر ان کی شخصیت کو اعتماد دیا تھا۔ عشرت جہاں کی نگاہیں ان پر تھیں۔ وہ صفدر جمال کے بے حد اصرار پر اس پارٹی میں شرکت کرنے آئی تھیں۔ مثنیٰ کا ہنستا  مسکراتا چہرہ ان کے بے چین دل کو کچھ قرار دینے لگا تھا وگرنہ گزشتہ دنوں میں جو انہوں نے مثنیٰ کی حالت دیکھی تھی  اس حالت نے ان کے پچھتاووں بھرے دل میں اور زیادہ گھٹن پیدا کر دی تھی۔
وہ جانتی تھیں کہ مرتے دم تک وہ اسی گھٹن کا شکار رہیں گی۔ کچھ خطائیں ایسی ہوتی ہیں جو زندگی میں فقط ایک بار ہی ہوتی ہیں مگر اس کی سزا تاحیات بھگتنی پڑتی ہے۔ معافی… شرمندگی… ندامت… آنسو… کچھ بھی تو کام نہیں آتا۔

”مسز عشرت! اتنے ٹھنڈے موسم میں آپ پسینہ پسینہ ہو رہی ہیں؟“ ان کے ساتھ بیٹھی مسز راحت پریشان لہجے میں ان سے مخاطب ہوئی تھیں۔
”طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی…؟ میں مثنیٰ کو بلا کر لاتی ہوں۔“

”ارے نہیں! میں ٹھیک ہوں۔ کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے میرے ساتھ…“ انہوں نے مسکرا کر مسز راحت کو تسلی کرائی تھی۔

###

ایک گھنٹے بعد ہی ڈاکٹر نے مرہم پٹی کے بعد انجکشن لگا کر چھٹی دے دی تھی۔ کچھ میڈیسن بھی دی تھیں  کوئی فریکچر نہیں ہوا تھا مگر کچھ چوٹوں کے باعث درد بہت زیادہ تھا۔
سیڑھیوں پر رکھے بھاری بھرکم گملوں کے ٹکڑوں نے اس کے ہاتھ  پاؤں اور جسم پر خراشیں ڈالی تھیں۔ درد و تکلیف میں اس کی ابھی تک کوئی افاقہ نہیں ہوا تھا۔ وہ طغرل کے خیال سے اپنے آنسوؤں پر قابو کئے ہوئے تھی اور جانتی تھی  وہ جو ابھی دنیا بھر کی شرافت و ہمدردی چہرے پر سجائے اسے سہارا دے رہا تھا۔ کل کو ضرور اپنے انداز میں دکھائے گا۔ گھر سے ہسپتال اور ہسپتال سے گھر تک وہ اس کے سہارے کی بدولت راستہ طے کر سکی تھی  راستے میں میڈیسن کے علاوہ طغرل نے فروٹ اور جوسز کے ڈبے خرید لئے تھے۔
وہ گھر پہنچے تو صباحت بیگم انہیں راہداری میں ہی مل گئیں اور ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔ سامنے کا منظر دیکھ کر جہاں طغرل کے دائیں بازو کا سہارا لئے پری بہت آہستگی سے چل رہی تھی  اس کا چہرہ شدت ضبط سے سرخ ہو رہا تھا اور آنکھیں صباحت کی سرچ لائٹس کی طرح چمکتی آنکھوں کے باعث جھک گئی تھیں۔

”بہو! ذرا پری کیلئے دودھ میں ہلدی ڈال کر لانا اور ہاں! دودھ گرم کرنا پہلے  کوئی نیکی کام آ گئی ہے جو بچی کی ہڈیاں سلامت ہیں ورنہ اتنا اوپر سے گرنے کے بعد ایک آدھ ہڈی ٹوٹنی تو لازمی تھی۔
“ ان کے پیچھے آنے والی اماں جان کہہ رہی تھیں۔ عادلہ اور عائزہ بھی کمروں سے نکل آئی تھیں۔ وہ بھی صباحت کی طرح حیرت سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھیں جو آگے اماں کے کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ حیرت  بے یقینی اور پھر عجیب سی آنچ عادلہ کی آنکھوں میں سلگنے لگی تھی۔ اماں جان نے ایک نظر ساکت کھڑی بہو پر ڈالی مگر وہ اس وقت پری کی تکلیف کے خیال سے اتنی ٹینشن میں تھیں کہ ان کے اس رویئے پر بھی غور نہ کر سکی تھیں جو اپنے اندر بہت سے معنی لئے ہوئے تھا۔

”مما! یہ… یہ دیکھا آپ نے…؟ دیکھا! پری طغرل کے کتنے قریب تھی اور دادی جان کو دیکھیں ذرا! کتنی خراب ہیں دادی! ہماری ذرا ذرا سی بات ان کو بے حیائی و بے شرمی دکھائی دیتی ہے اور پری تو جیسے بالکل ہی دودھ پیتی بچی ہے۔ کتنے مزے سے وہ طغرل کے سہارے سے لگی چل رہی تھی۔“ عادلہ کا غم و غصے سے برا حال تھا وہ تو طغرل پر صرف اپنا حق سمجھتی تھی۔
صباحت کو کسی پل چین نہیں آ رہا تھا۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی صبح سویرے انہوں نے پری کو طغرل کے ساتھ آتے دیکھا تھا اور وہ بڑی مشکل سے یقین کر پائی تھیں اور کوشش کے باوجود بھی یہ معلوم نہ کر سکی تھیں کہ وہ دونوں کہاں سے آئے تھے اور وہ پری کی دشمن بن گئی تھیں۔ آج وہ تینوں پارلر گئی ہوئی تھیں  وہاں سے واپسی پر گیٹ سے چوکیدار نے اطلاع دی کہ پری بی بی سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہو گئی ہیں۔
طغرل صاحب اور دادی بیگم ان کو ہسپتال لے کر گئی ہیں۔ انہیں پری کے گرنے کی تو کوئی فکر نہ ہوئی  فکر ہوئی تو اس بات کی کہ طغرل کیوں ساتھ گیا…؟ وہ جو پری کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھا ہر لمحہ اس کو نیچا دکھانے کی سعی میں لگا رہتا تھا  اب آہستہ آہستہ پری کی طرف متوجہ ہو رہا تھا۔ جس کا مقصد تھا  اماں پری کیلئے خاموشی سے راہ ہموار کر رہی تھیں جو ان کو گوارا نہ تھا۔
وہ بے قراری سے وہیں ٹہلنے لگی تھیں۔

”آپ! یہ کیوں بھول رہی ہیں کہ طغرل بھائی بھی تو ان میں شامل ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا  وہ خود انٹرسٹڈ ہو گئے ہیں پری میں…!“ خاموشی کھڑی عائزہ نے بھی لب کشائی کی۔

”خاموش رہو عائزہ! تمہیں یہ کہنے سے پہلے کچھ سوچنا چاہئے کہ تم کس کیلئے انٹرسٹڈ کا جملہ استعمال کر رہی ہو؟“ عادلہ کسی انگارے کی مانند ایک دم بھڑکی تھی۔

”آپی! آپ کیوں غصہ ہو رہی ہیں؟ میں سچ تو کہہ رہی ہوں۔“

”اپنا سچ! اپنے پاس رکھو۔ آئی بڑی سچ و جھوٹ کا فیصلہ کرنے والی عقل مند! منگنی کیا ہو رہی ہے تمہاری  آسمان پر اڑنے لگی ہو۔“

”تو اور کیا میں تو اڑوں گی  چھوٹی ہونے کے باوجود مجھے پسند کیا گیا ہے  مجھے کم از کم آپ کی طرح پاپڑ بیلنے تو نہیں پڑیں گے۔“ عائزہ نے بڑی نخوت بھرے انداز میں جواب دیا۔

”چپ کرو  نہ موقع دیکھتی ہو نہ جگہ… بس چونچیں لڑانے بیٹھ جاتی ہو۔ جا کر پری کی طبیعت پوچھو ورنہ اماں جان ایک ہنگامہ کھڑا کر دیں گی  میں دودھ میں ہلدی ملا کر لا رہی ہوں۔“ دونوں کے تیور بگڑتے دیکھ کر صباحت کو مداخلت کرنی پڑی تھی۔

”مما! ہلدی کی جگہ زہر ملا کر دے دیں اس منحوس کو…“

”میرا بس چلتا تو عادلہ! کب کا دے دیتی مگر وہ اماں جان…“ صباحت دانت پیستی ہوئی کچن کی طرف بڑھ گئی تھیں۔
ان دونوں نے بھی دادی جان کے کمرے کی راہ لی تھی۔

پری بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی کمبل اوڑھے  دادی جان اس کے سرہانے بیٹھی تھیں اور طغرل کرسی پر بیٹھا تھا۔ وہ دونوں جا کر صوفے پر بیٹھ گئی تھیں کیونکہ اس وقت دادی جان پری کو ڈانٹ رہی تھیں۔

”تم کیا کرنے گئی تھیں اوپر…؟“

”پودوں کی کانٹ چھانٹ کر رہی تھی دادی! بہت دن ہو گئے تھے پودوں کی تراش خراش کئے ہوئے… میں نے سوچا آج کر لیتی ہوں  کل مہمان بھی آئیں گے تو اچھا لگے گا۔
“ وہ دھیرے سے بولی۔

”مہمان بھی آئیں گے تو اچھا لگے گا  جیسے مہمان آکر تمہارے پھولوں پودوں کو ہی تو دیکھیں گے۔ ہزار بار سمجھایا ہے دونوں وقت مل رہے ہوں تو پیڑ پودوں کے قریب مت جایا کرو۔“ دادی غصے میں اس کی بات دہراتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ ”عصر و مغرب کے درمیانی وقت میں نامعلوم کون کون سی مخلوق ظاہر ہوتی ہیں  کنواری بچیوں کو روگ بن کر لگ جاتی ہیں  اب دیکھو لو کل کا کام سر پر ہے اور تم زخمی ہو کر پڑ گئی ہو۔

”آپ کیوں فکر کرتی ہیں دادی! کل کے انتظامات کا کام ان کا تھوڑی ہے۔ اگر آپ مطمئن نہیں ہیں تو میں ویٹرس کا انتظام کروا دیتا ہوں۔“ طغرل نے کہا۔

”پاپا کہہ رہے تھے انہوں نے ویٹرس کا اہتمام کیا ہوا ہے پھر اس میں اتنا فکر مند ہونے کی کیا ضرورت ہے دادی جان!“ عائزہ نے استفسار کیا۔

”تم گر کس طرح گئیں؟ حیرت ہے وہاں تو کوئی گرنے کی ایسی جگہ نہیں ہے۔
“ عادلہ نے استہزائیہ انداز میں پری سے سوال کیا۔

”ان کے سوالات کا سلسلہ جاری تھا جبھی صباحت دودھ میں ہلدی ملا کر لے آئیں اور گلاس لاکر پری کے بجائے اماں جان کو تھما دیا۔

”بہو! اتنی دیر تو شاید فرہاد نے بھی دودھ کی نہر کھودنے میں نہ لگائی ہو گی جتنی کچن سے دودھ گرم کرکے لانے میں تم نے لگائی ہے۔“ اماں حسب عادت جتانے سے باز نہ آئیں۔

”ہلدی ختم ہو گئی تھی وہ ملازم سے منگوائی تھی  اس کے لاتے ہی میں یہاں لے کر آئی ہوں۔“ طغرل کی موجودگی میں وہ بہت خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتی تھیں۔

”دادی جان!“ پری نے گلاس دیکھتے ہوئے منہ بنایا تھا۔ ”میں نے کہا تھا ناں مجھ سے یہ دودھ نہیں پیا جائے گا۔ٴٴ

”میں خود پلاؤں گی اپنے ہاتھوں سے… دیکھتی ہوں کیسے نہیں پیا جائے گا۔
سردی کی چوٹ ہے  یہ بہت فائدہ مند ہوگا تمہاری چوٹوں کیلئے۔ یہ دودھ تو تم کو پینا پڑے گا۔“ ان کو اس وقت صرف پری کی فکر تھی اور اتنی فکر تھی کہ کمرے میں بیٹھے نفوس کی بھی ان کو پروا نہ رہی تھی۔ طغرل بھی ان کے اس رویئے کو محسوس کر رہا تھا۔ مگر سمجھ رہا تھا کہ دادو پری کی تکلیف کے خیال سے بے چین و پریشان ہیں لیکن عادلہ اور صباحت کی نظروں کا محور وہ خود تھا۔ وہ بہت جانچتی ہوئی نگاہوں سے اس کا جائزہ لے رہی تھیں۔

   2
0 Comments